Thursday, December 8, 2011

کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلاۓ گا؟


جوش ملیح آبادی کا سورۂ رحمن کے مضامین سے استفادہ پیش ہے
جس میں آیت فَبِی اَیِّ آلآءِ رَبِّکُما تُکَذِّّبَان کی تکرار ہے۔
نوٹ: یہ نظم سورۂ رحمٰن کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ شاعر نے اس میں سورۂ رحمٰن کے مضامین سے استفادہ کیا ہے

سورۂ رحمن

کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلاۓ گا؟
اۓ فنا انجام انساں! کب تجھے ہوش آۓ گا؟
تیرگی میں ٹھوکریں آخر کہاں تک کھاۓ گا؟
کیا کرے گا سامنے سےجب حجاب اُٹھ جاۓ گا؟

کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں ٹھکراۓ گا؟


سبز گہرے رنگّ کی بیلیں چڑھی ہیں جابجا
نرم شاخیں جھومتی ہیں رقص کرتی ہے صبا
پھل وہ شاخوں میں لگے ہیں دلفریب و خوش نما
جن کا ہر ریشہ ہے قندِ شہد میں ڈوبا ہوا

کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلاۓ گا؟


یہ سحر کا حُسن، یہ سیارگاں اور یہ فضاء
یہ مُعطر باغ، یہ سبزہ، یہ کلیاں دِلربا
یہ بیاباںِ، یہ کھلے میدان، یہ ٹھنڈی ہوا
سوچ تو کیا کیا کِیا ہے تجھ کو قدرت نے عطا؟

کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جُھٹلاۓ گا؟


پُھول میں خوشبُو بھری جنگل کی بُوٹی میں دوا
بحر سے موتی نکالے صاف، روشن، خوشنما
آگ سے شعلہ نکالا، ابرسے آبِ صفا
کس سے ہو سکتا ہے اس کی بخششوں کا حق ادا

کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلاۓ گا؟


خُلد میں حُوریں تری مشتاق ہیں آنکھیں اٹھا
نیچی نظریں جن کا زیور جن کی آرایٔش حیا
جنّ و انساں میں کسی نے بھی نہیں جنکوچُھوا
جن کی باتیں عطر میں ڈوبی ہویٔں جیسے صبا

کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جُھٹلاۓ گا؟


ہر نَفَس طُوفان ہے، ہر سانس ہے اک زلزلہ
موت کی جانب رواں ہے زندگی کا قافلہ
مضطرب ہر چیز ہے جنبش میں ہے ارض و سما
ان میں قایٔم ہے تو تیرے رب کے چہرے کی ضیاء

کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جُھٹلاۓ گا


اپنے مرکز سے نہ چل منہ پھیر کر بہرِ خدا
بُھولتا ہے کویٔ اپنی ابتداء اور انتہاء
یاد ہے وہ دَور بھی تُجھ کو کہ جب تو خاک تھا
کس نے اپنی سانس سے تجھ کو منور کر دیا

کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جُھٹلاۓ گا؟


صبح کے شفاف تاروں سے برستی ہے ضیا
شام کو رنگِ شفق کرتا ہے اک محشر بپا
چودھویں کے چاند سے بہتا ہے دریا نُور کا
جُھوم کر برسات میں اٹھتی ہے متوالی گھٹا

کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جُھٹلاۓ گا؟

No comments:

Post a Comment