Monday, May 14, 2012

لشکر میں خراساں کے عجب چاند تھا ابھرا


یمنی قبا کو اوڑھ کے قحطان کا باسی

لشکر میں خراساں کے عجب چاند تھا ابھرا

حق کا علم وہ قبلئہ اولی میں گاڑھنے

اسلام کا جھنڈا لیئے آیا تھا اسامہ


سلطانیت کے تاج میں فقیری کی چمک تھی

انسانیت کے روپ میں فرشتوں کی صفت تھی

سنت کی پیروی میں صحابہ کی جھلک تھی

اللہ نے اپنے نور سے سجایا تھا اسامہ


عالم کفر کی اینٹ سے اینٹیں بجا گیا

امریکا کی راتوں کی جو نیندیں اڑا گیا

پڑتا تھا میلوں دور سے کفر پہ جسکا رعب

طاغوت کو بس نام ہی کافی تھا اسامہ


وہ راہِ حق کا راہی تھا شہید ہوگیا

جہاد کا دنیا میں سچا بیج بوگیا

گلشن میں اسکے اب کے بہاراں ہی آئے گی

ہر نوجواں کہے گا ہوں میں ابن اسامہ


تھی جسکو اپنے رب سے شہادت کی تمناء

اسلام کے گلشن کو اپنا خون دے گیا

آنکھوں میں جسکے نور ہدایت تھا چمکتا

اللہ کے دین کے چاند کا ہالہ تھا اسامہ


ہے آنکھ نم پر دل پہ سکینت سی ہے طاری

کہ آج اسامہ صاحبِ حیات ہوگیا

حبِ یزداں کا ِاک استعارہ تھا وہ

اور داستاں بننے کو ہی آیا تھا اسامہ


جنت میں ہوئی گونج ابنِ محمد آگیا

خود چل کے محمد نے گلے سے لگالیا

صدیق و صالحین و شہداء کے سنگ سنگ

اخروی محل کو لوٹنے آیا تھا اسامہ


کرتی ہوں دعا رب سے کہ الفاظ یہ میرے

اللہ کرے یوں ہی حقیقت بھی بنے ہوں

آخر میں دعا ہے کہ دعا ہوں میری مقبول

رہے عرش کی قندیل میں امت کا اسامہ

یہ جتنے خسارے ہیں ، اعمال ہمارے ہیں!۔


حالات کے مارے ہیں، گردش میں ستارے ہیں
کس کس کے جگر گوشے، کس کس کے دُلارے ہیں
لاشے جو شہیدوں کے قبروں میں اُتارے ہیں
بھیگی ہوئی آنکھوں میں دِل سوز نظارے ہیں۔۔۔

یہ جتنے خسارے ہیں ، اعمال ہمارے ہیں!۔

کلمہ تو پڑھ رہے ہیں، کامل نہیں ہے ایمان
روزہ نماز بھولے، اوطاق پر ہے قرآن
اب تو ہم رہ گئے، بَس نام کے مسلمان
اسلام کا دعویٰ ہے، کرتُوت نرالے ہیں

یہ جتنے خسارے ہیں ، اعمال ہمارے ہیں!۔

ہیں گھر کے فرد باغی، اپنے گھرانوں سے
یاروں کا رابطہ ہے دشمن کے ٹھکانوں سے
پھر کس طرح خطا ہو، کوئی تیر نشانے سے
غیروں سے کیا شکایت، اپنوں کے ہی مارے ہیں

یہ جتنے خسارے ہیں ، اعمال ہمارے ہیں!۔

بغداد، سَرب، چیچن، افغان جَل رہا ہے
کشمیر اور فلسطین، مہران جل رہا ہے
انسان کے ہاتھوں سے انسان جَل رہا ہے
دہشت و دھواں ہے، شعلے ہیں شرارے ہیں

یہ جتنے خسارے ہیں ، اعمال ہمارے ہیں!۔

ہم دینِ محمد (ﷺ) کے مقصد سے ہٹ گئے ہیں
قوموں میں بَٹ گئے ہیں، فرقوں میں چَھٹ گئے ہیں
موقوف اپنا اپنا۔ موقوف ڈٹ گئے ہیں
دِن ایک دوسرے کی غیبت میں گذارے ہیں

یہ جتنے خسارے ہیں ، اعمال ہمارے ہیں!۔

صد حیف کہ آپس میں دست و گریباں ہیں
اب اہلِ کلیسا تو قبلے کے نگہباں ہیں
مکہ و مدینہ بھی توپوں کے درمیاں ہیں
گویا کہ قیامت کی آمد کے اشارے ہیں

یہ جتنے خسارے ہیں ، اعمال ہمارے ہیں!۔

توبہ کا دَر کھلا ہے، موقع ہے سنبھلنے کا
محبوبِ کبریا کے فرمان پہ چلنے کا
اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کا
وہ صاحبِ بخشش ہے، جِس رَب کے سہارے ہیں

یہ جتنے خسارے ہیں ، اعمال ہمارے ہیں!۔
یہ جتنے خسارے ہیں ، اعمال ہمارے ہیں!۔

شکوہ


روز حشر میں بے خوف
گھس جاؤں گا جنت میں
وہیں سے آئے تھے آدم
وہ میرے باپ کا گھر ہے

جواب شکوہ

ان اعمال کے ساتھ تو
جنت کا طلبگار ہے کیا
وہاں سے نکالے گئے تھے آدم
تو تیری اوقات ہے کیا

جو ہوں فرعون ان کو میں خدا کہہ دوں یہ مشکل ہے


جو ہوں فرعون ان کو میں خدا کہہ دوں یہ مشکل ہے
جو ہوں دجال ان کو میں انبیاء کہہ دوں یہ مشکل ہے

مجھے زنجیر پہنا دو، مجھے سولی پہ لٹکا دو
مگر میں رہزنوں کو رہنما کہہ دوں یہ مشکل ہے

جو طوفاں کی خبر سن کر لرزتے ہیں کناروں پر
میں ایسے بزدلوں کو ناخدا کہہ دوں یہ مشکل ہے

قبا پوشی کے پردے میں جو عیاشی کے رسیا ہیں
میں ایسوں کو شیوخ و صُوفیاء کہہ دوں یہ مشکل ہے

خدا مشکل میں خود مشکل کشا ہے اپنے بندوں کا
کسی مشکل میں اُن کو مشکل کشا کہہ دوں یہ مشکل ہے

کرم مانگتا ہوں* عطا مانگتا ہوں*


کرم مانگتا ہوں* عطا مانگتا ہوں*

یا الہی میں*تجھ سے دُعا مانگتا ہوں

عطا کر تُو شانِ کریمی کا صدقہ

دلا دے الہی رحیمی کا صدقہ

نہ مانگوں*گا تجھ سے

تو مانگو گا کس سے

تیرا ہوں*میں*تجھ سے دُعا مانگتا ہوں

جو مُفلس ہیں اُن کو دولت تو عطا کر

جو بیمار ہیں*اُن کو صحت عطا کر

مریضوں کی خاطرشفا مانگتا ہوں

الہی میں*تجھ سے دُعا مانگتا ہوں

الہی ہمیں*شادو مسرور رکھنا

بلائوں سے ہمیں*صدا دور رکھنا

پریشانیاں ہم کو گھیرے ہوئے ہیں*

پریشانیوں سے پناہ مانگتا ہوں

الہی میں*تجھ سے پناہ مانگتا ہوں