یمنی قبا کو اوڑھ کے قحطان کا باسی
لشکر میں خراساں کے عجب چاند تھا ابھرا
حق کا علم وہ قبلئہ اولی میں گاڑھنے
اسلام کا جھنڈا لیئے آیا تھا اسامہ
سلطانیت کے تاج میں فقیری کی چمک تھی
انسانیت کے روپ میں فرشتوں کی صفت تھی
سنت کی پیروی میں صحابہ کی جھلک تھی
اللہ نے اپنے نور سے سجایا تھا اسامہ
عالم کفر کی اینٹ سے اینٹیں بجا گیا
امریکا کی راتوں کی جو نیندیں اڑا گیا
پڑتا تھا میلوں دور سے کفر پہ جسکا رعب
طاغوت کو بس نام ہی کافی تھا اسامہ
وہ راہِ حق کا راہی تھا شہید ہوگیا
جہاد کا دنیا میں سچا بیج بوگیا
گلشن میں اسکے اب کے بہاراں ہی آئے گی
ہر نوجواں کہے گا ہوں میں ابن اسامہ
تھی جسکو اپنے رب سے شہادت کی تمناء
اسلام کے گلشن کو اپنا خون دے گیا
آنکھوں میں جسکے نور ہدایت تھا چمکتا
اللہ کے دین کے چاند کا ہالہ تھا اسامہ
ہے آنکھ نم پر دل پہ سکینت سی ہے طاری
کہ آج اسامہ صاحبِ حیات ہوگیا
حبِ یزداں کا ِاک استعارہ تھا وہ
اور داستاں بننے کو ہی آیا تھا اسامہ
جنت میں ہوئی گونج ابنِ محمد آگیا
خود چل کے محمد نے گلے سے لگالیا
صدیق و صالحین و شہداء کے سنگ سنگ
اخروی محل کو لوٹنے آیا تھا اسامہ
کرتی ہوں دعا رب سے کہ الفاظ یہ میرے
اللہ کرے یوں ہی حقیقت بھی بنے ہوں
آخر میں دعا ہے کہ دعا ہوں میری مقبول
رہے عرش کی قندیل میں امت کا اسامہ